کبھی یوں بھی آ مری آنکھ میں کہ مری نظر کوخبر نہ ہومجھے ایک رات نواز دے مگر اس کے بعد سحر نہ ہووہ بڑا رحیم و کریم ہے تجھے یہ صفَت بھی عطا کرےتجھے بھولنے کی دعا کروں تو مری دعا میں اثر نہ ہومرے بازوؤں میں تھکی تھکی ابھی محو خواب ہے چاندنینہ اٹھے ستاروں کی پالکی ابھی آہٹوں کا گزر نہ ہویہ غزل کہ جیسے ہرن کی آنکھ میں پھیلی رات کی چاندنینہ بجھے خرابے کی روشنی کبھی بے چراغ یہ گھر نہ ہووہ فراق ہو کہ وصال ہو تری یاد مہکے گی ایک دنوہ گلاب بن کے کھلے گا کیا جو چراغ بن کے جلا نہ ہوکبھی دھوپ دے کبھی بدلیاں دل و جاں سے دونوں قبول ہیںمگر اس نگر میں نہ قید کر جہاں زندگی کی ہوا نہ ہوکبھی دن کی دھوپ میں جھول کے کبھی شب کے پھول کو چوم کےیونہی ساتھ ساتھ چلیں سدا کبھی ختم اپنا سفر نہ ہومرے پاس مرے حبیب آ ذرا اور دل کے قریب آتجھے دھڑکنوں میں بسا لوں میں کہ بچھڑنے کا کبھی ڈر نہ ہو
بشیر بدر سِنگ بائے جگجیت سنگھ