بے دردری بالما تجھکو میرا من یاد کرتا ہے
برستا ہے جو آنکھوں سے وہ ساون یاد کرتا ہے
کبھی ہم ساتھ گذرے تھے سجیلی راھ گذاروں سے
خزاں کے بھیس میں گرتے اب پتے چناروں سے
یہ راہیں یاد کرتی ہیں یہ گُلشن یاد کرتا ہے
کوئی جھونکا ہوا کا جب میرا آنچل اُڑاتا ہے
گُماں ہوتا ہے جیسے تو میرا دامن ہلاتا ہے
کبھی چوما تھا جو تونے وہ دامن یاد کرتا ہے
وہی ہیں جھیل کے منظر وہی کرنوں کے برساتیں
جہاں ہم تم کیا کرتے تھے پہروں پیار کی باتیں
تجھے اس جھیل کا خاموش درپن یاد کرتا ہے